اخوت یونیورسٹی میں ایک دن


دو شخص ایک بلڈنگ کے سامنے کھڑے ہیں۔


الرّحیق المختوم میں مولانا صفی الرّحمن مبارکپوری  اخوت کے بارے میں لکھتےہیں کہ جس طرح رسول اللہ ﷺنے مسجد نبوی کی تعمیر کا اہتمام فرما کر باہمی اجتماع اور میل ومحبت کے ایک مرکز کو وجود بخشا  اسی طرح

 آپ ﷺنے تاریخ انسانی کا ایک اور نہایت تابناک کارنامہ سرانجام دیا جسے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات اور بھائی چارے کا نام دیا جاتا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں ہجرت کی سب سے بڑی مثال قیام پاکستان کے وقت دیکھنے میں آئی۔ جہاں ہندوستان سے قافلے لاچارگی ،بے بسی اور لٹی ہوئی حا لت میں پاکستان آئے اوریہاں ان کی بحالی کا عمل  مکمل ہوا۔جس میں ظلم وستم اور محبت و یگانگت کی  مثالیں دیکھنے کو ملیں۔قیام پاکستان کے بعد  حالیہ تاریخ تک ملک کے نچلا طبقہ بےشمار مسائل سے دوچار تھا۔اسی تناظر میں  اخوت کے ادارے نے تقریباً 23 سال قبل غریبوں کی مشکلات کو آسان کرنے کا عزم کیا۔اور بہت کم وقت میں اپنے اہداف مکمل کرنے میں کامیاب ہوئے۔جوکہ ملک کے دوسرے لوگوں اور اداروں کےلیے مشعل راہ ہے۔ٍاخوت کی شاخیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔

کافی لوگ بلڈنگ کے سامنے
(اخوت یونیورسٹی)


ہمیں اخوت  یونیورسٹی   دیکھنے اور ڈاکٹر محمد امجد ثاقب سے ملنے کا گزشتہ کئی سالوں سے انتظار تھا۔آخر کار  8 مارچ      2020چھٹی کے دن کا  انتخاب کیا گیا۔ سوشل میڈیا  سے معلوم ہوا کہ پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب کا لیکچر"مواخات اور سماجی انصاف" اخوت  یونیورسٹی   واقع  قصور میں 8 مارچ  بروز اتوار ہو رہا ہے۔ہم نے  یک  نہ شد دو شد کے  بقول لیکچر میں جانے  کا اندراج کروا دیا۔ بہا ر کے موسم کی ایک خوشگوار دوپہر کو ہم  اخوت  یونیورسٹی    کی طرف روانہ ہو گئے۔تقریباًٍ ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم شہر کی  رونقوں اور ٹریفک کے شور (کورونا  لاک ڈاؤن سے پہلے) سے دور نہر کنارے  واقع  اخوت  یونیورسٹی    کیمپس پہنچ گئے۔میں ایک بجے  سے پندرہ منٹ پہلے اخوت  یونیورسٹی   پہنچا تو خوش قسمتی سے ڈاکٹر  امجد ثاقب استقبالیہ ٹیم سے مل رہے تھے۔ انہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ دوسرے مہمانوں کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی   ڈاکٹر  امجد ثاقب کے ساتھ ایک تصویر بنائی۔ یونیورسٹی کی مسجد میں ظہر  کی نماز باجماعت ادا کی۔نماز کے بعد پنڈال میں پہنچے تولوگوں کا ایک جم غفیر موجود تھا۔راستے میں یونیورسٹی کے طلباء نے  ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتابوں کا سٹال سجا رکھا تھا۔ جن میں کامیاب لوگ، اخوت کا سفراور مولو مصلّی نمایاں تھیں۔تلاوت قرآن پاک اور نعت مقبول ﷺ کے   یونیورسٹی کے  منتخب طلباء  نے  اپنا تعارف اور زندگی کا مقصد بتایا ۔معلوم ہوا کہ یونیورسٹی میں پورے پاکستان بشمول گلگت بلتستان سے مستحق  طلباء   تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس کے بعد  ڈاکٹر  محمد امجد ثاقب صاحب نے   یونیورسٹی کے اغراض و مقاصد بیان کیے۔اور بتایا کہ کس طرح  طول و عرض سے لوگوں نے  یونیورسٹی کی تعمیر میں اینٹیں خرید کر  حصہ لیا۔ اور جب راجن پور کی خاتون کا ذکر ہوا کہ اس کے پاس   پوری اینٹ خریدنے کے لیے پیسے نہیں کیا وہ آدھی اینٹ خرید سکتی ہے تو پنڈال  میں موجود لوگوں کے جذبات دیدنی تھے۔اس کے بعد معروف کالم نگار اور صحافی     ہارون  الرشید نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب کا لیکچر  شروع ہو ا تو تمام لوگ ہمہ تن گوش ہو گئے۔ پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب کا  انداز بیان  اور مشکل  نکات کی  سادہ الفاظ  میں تشریح  ، قرآن، اسلام اور سائنس پر ان کی منطقی وضاحت  نے وقت گزرنے کا احساس نہیں ہونے دیا۔سوالات اور جوابات کے سلسلے نے مزید علمی  گتھیوں کو سلجھا دیا۔ پنڈال حاضرین سے بھرا ہوا تھا۔وہاں پر جہاں  کافی  پرانے  دوستوں سے ملاقات کا  موقع ملا۔اسکے ساتھ کچھ نئے لوگوں سے بھی آشنائی ہوئی۔لیکچر کے دوران اور اس کے بعد مہمانوں کی خدمت و تواضع کا خصوصی انتظام تھا۔غربت کے خاتمے کے لئے اخوت فاؤنڈیشن نے بلا سود قرضوں کا اجرا کر کے لاکھوں لوگوں کو اپنے پاؤں  پر  کھڑا ہونے کا سلیقہ سکھایا ہے۔بلاشبہ اخوت  دنیا کابلا سود قرض دینے والا سب سے بڑا مائیکرو فنانس ادارہ ہے جس میں قرض کی واپسی کی شرح 99 فیصد ہے۔ملک بھر میں ہر روز اخوت کے ہزاروں کارکن ضرورت مندوں کے گھر پر دستک دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لو قرض حسنہ اور اپنا کاروبار شروع کرو۔ اخوت  کے کارکن مساجد اور دوسری دستیاب مذہبی عمارات کو  استعمال کر کے  قرضے  فراہم کرتی ہے۔تاکہ ادارے کے عام  اخراجات کم ہوں۔اخوت کے منشور میں ایمان،احسان اور اخلاص بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔کورونا وائرس کی وبا ء کے بعد  ڈاکٹر محمد امجد ثاقب نے "ہمسایہ سے مواخات ۔کورونا سے جنگ"کا لائحہ عمل دیا ہے۔جس کے اہم نکات یہ ہیں۔

پنڈال میں خطاب
( پروفیسر احمد رفیق اختر  کا خطاب)


1 ۔ اگر ہر شخص سونے سے پہلے یقینی بنائے کہ اس کا ہمسایہ بھوکا نہیں تو کوئی شخص بھوکا نہیں سوئے گا ۔

2۔ کم خوشحال علاقوں کی مساجد/چرچ /مندر میں راشن بیگ رکھ دیں تو  غریب بستی تک خوراک پہنچ جائے گی ۔

3۔ اذان کے ساتھ اعلان ہو کہ اگر کسی کو آج مزدوری نہیں ملی تو ا س کا کھانا مسجد کے دسترخوان پہ سجا ہے۔

4۔ مسجد کمیٹی ذمہ دار ہو کہ ان کے محلے میں کوئی بھوکا نہ رہے ۔

اچھی اقوام اور افراد کا صحیح ادراک مشکل  آفات کے اوقات میں ہوتا ہے۔اس مشکل گھڑی میں ہمیں اپنے مستحق لوگوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔آخر میں چند اشعار اخوت  فاؤنڈیشن کے نام۔

ہو صاف یہ بدن تو طبیب سے نجات

ہو صاف من یہ اپنا تو برسیں تجلیات

نہ ہو سوچ منتشر تو ارفع خیالات

ایثار کا جذبہ کرے پیدا مواخات


Post a Comment

4 Comments

Zainab said…
i would also love to visit this university one day.
Shahid Ali said…
Very informative article
Minahil said…
Your writing skills are amazing MaShaAllah. 👍
amjad said…
Dear Thanks for your valuable views.