حج کی سعادت

 

A person standing at Khaana Kaaba


 

حج کی سعادت حاصل کرنا ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے۔ مختلف ٹور آپریٹرز کی جانب سے دلکش پیکیجز کا اعلان کیا جاتا ہے۔بینکوں کے باہر"یہاں پر حج کی درخواستیں وصول کی جاتی ہیں " کے بینر ز آویزاں کئے جاتے ہیں۔حج پر جانے والے لوگ اپنے عزیزوں سے ملتے ہیں۔بزرگوں سے دعائیں لیتے ہیں۔اگر میاں بیوی نے جانا ہوتا تو بچوں کا قریبی  رشتہ داروں کے ہاں ٹھہرانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔لوگوں کی دعائیں نوٹ کی جاتی ہیں۔واپسی کے تحائف کی لسٹ بنائی جاتی ہے۔پی آئی اے خصوصی حج پروازوں کا شیڈول جاری کرتا ہے اور اور  وزارت مذہبی امور  مختلف لسٹیں فائنل کرتا ہے۔

 ممتاز مفتی  کی لبیک    میں نے 2010 میں لائبیریا میں اقوام متحدہ کے مشن کے دوران پڑھی تھی۔ایک دفعہ 2012 میں حج  کا ارادہ کیا لیکن بعض  ناگزیر وجوہات کے باعث  ارادے کی تکمیل نہ ہو سکی۔2018 میں حج کی لسٹ میں نام آگیا۔ بنیادی تربیت،میڈیکل اور ضروری رخت سفر لیے ہم اسلام آباد کے نئے ائیرپورٹ پر روانگی کے لئے تیا ر تھے۔مجھے ایسے لگا جیسے کوئی خواب دیکھ رہا  ہوں۔آرمی حج  کے مندوبین کے ساتھ ہمارا یہ پیکیج   45  دن کا  تھا۔۔ جہاز کے فضا کے دوران مدینہ کےقریب پہنچنے کی خبر سے تمام حجاج کے چہرے جگمگا اٹھے۔مدینہ ائیرپورٹ پر اترنے اور ضروری کاروائی کے بعد  ہم ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے۔ہماری رہائش مسجد نبوی سے قریب تھی۔دل میں جلد از جلد روضہ رسول پر حاضری کی خواہش    تھی۔کمروں میں سامان رکھنے کے بعد  مسجد نبوی کی طرف روانہ ہو گئے۔جب مسجد نبوی کے مینار نظر آئے تو محمد علی ظہوری کے بقول اللہ کی رحمت کے آثار نظر آئے۔دن رات مدینے میں گزرے۔   لیکن ان دنوں کے گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔کبھی مدینے  کی گلیاں،کبھی  روضہ رسول پہ حاضری، ریاض الجنہ میں نوافل۔دھکے کھانا سعادت سمجھا۔اصحاف صفہ کا چبوترہ دیکھا۔مسجد نبوی کی لائبریری دیکھی۔ مسجد بلال دیکھی ۔کبھی مسجد قبا پیدل جانا،تو کبھی غزوہ  احد کے شہداء کے لئے دعا کرنا۔جنت البقیع  میں دعا کی،غزوہ خندق کے نشان دیکھنا تو کبھی مسجد قبلتین میں نما ز ادا کرنا۔لوگ مدینے میں ہی ہمیں حاجی صاحب کہہ کر پکارتے۔کبھی کھجوروں کے باغ کی سیر تو  کبھی قرآن میوزیم  میں بریفنگ، کبھی آب زمزم پیا تو کبھی عرب دوستوں کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوئے۔ستون حنانہ دیکھا۔مسجد الغمامہ دیکھی،مسجد علی دیکھی،سقیفہ بنی سعدہ  دیکھا، مسجد ابو ذر غفاری دیکھی،کھجوروں کی مارکیٹ دیکھی۔اور تحفہ کے لئے کھجوریں خریدیں۔بئر غرس دیکھا۔حضرت سلمان  فارسی   کا باغ دیکھا۔تقریباً بارہ دن مدینہ میں قیام کے بعد ہم مکہ کی طرف  روانہ ہوئے ۔مناسب میقات  پر احرام باندھا۔راستے میں رہنمائی اور کھانے پینے کا عمدہ انتظام تھا۔مکہ پہنچے تو خوش قسمتی ہماری رہائش مسجد حرم کے بالکل قریب تھی۔رات ہو چکی تھی ۔ہوٹل میں سامان رکھنے کے بعد ہم پہلے عمرے اور طواف کے لئے خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہوئے۔تلبیہ پڑھتے گئے۔ خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑی تو زندگی کی سب سے بڑی خواہش کی تکمیل اور اپنے گناہوں کی ندامت پر آنسو  رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔بچپن سے خانہ کعبہ کی تصویر آنکھوں میں بسی ہوئی تھی۔حقیقیت میں اسے دیکھا تو زباں کو اظہار سے مجبور اور قلم کو تحریر  سے قاصر پایا۔شائد دل کے کسی کونےمیں  کیفیت نقش ہو گئی ہو ۔  کعبے کی رونق  اور کعبے کے منظر  کو  سید صبیح الدین رحمانی نے بہترین  الفاظ میں  بیان کیا  ہے۔ طواف کی منظر کشی سرور حسین نقشبندی نے ان الفاظ میں کی ہے کہ"  بندوں پہ سائبان کرم ہے طواف میں"۔مقام ابراہیم پر نوافل اد اکئے۔خانہ  کعبہ کے  کونوںمیں  دن اور  رات  گزرے۔کبھی رسول اکرم ﷺ کا گھر دیکھا تو کبھی  مسجد ابو بکر صدیق۔مسجد جن دیکھی۔جنت المعلی کے قبرستان میں دعا کی۔ نہر زبیدہ کے آثار دیکھے۔منی کا خوب صورت شہر دیکھا۔ مسجد جرانہ دیکھی۔کوشش کر کے حرم کی حدود کے اندر نماز ادا کی۔ حجر اسود کو چومنے کی سعادت حاصل کی۔حطیم میں نوافل ادا کئے۔غار حرا دیکھی تو قرآن پاک کی عظمت میں اور اضافہ ہوا۔مولانا الطاف حسین حالی کے  بقول " اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا"۔غار حرا کے راستے کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔غار ثور دیکھی تو  ابو بکر صدیق کی دوستی   کا احساس  ہوا۔حرم شریف میں قرآن مجید کا تحفہ ملا۔البیک کے کھانے ملے۔عرب بھائیوں کی سخاوت دیکھ کر حاتم طائی کی یاد تازہ ہوگئی۔ایک ٹرک والا چھ چھ قیمتی جوس ایک ساتھ دے رہا تھا  تو کوئی بریانی تقسیم کر رہا تھا۔صبح کی نماز کے وقت بھی تمام دوکانیں کھلی دیکھیں۔مڈل کلاس تک تو عربی لازمی پڑھی تھی اس کا عملی فائدہ دیکھا۔کیوں کہ ہر جگہ عربی بولی جارہی تھی۔مسجد خیف دیکھی، مسجد  نمرہ  دیکھی.۔ مسجد عائشہ دیکھی ۔جبل النور دیکھا تو خطبہ حجتہ الوداع کی آفاقیت  اور انسانی حقوق کے عظیم منشور کی اہمیت آشکار ہوئی۔لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے دیکھا۔ملین کی تعداد میں لوگوں میں  ترتیب اور ڈسپلن دیکھا۔خانہ کعبہ میں صفائی کرنے والوں کے چہرے معطر دیکھے۔لبن کا پسندیدہ مشروب  پیا۔ایک بس سٹاپ پر کھڑے ہوئے  تو ایک بلی ہمارے پاؤں کے پاس آگئی۔ شائد اسے خبر تھی کہ اسے کوئی گزند نہیں پہنچائے گا۔مکہ کی گلیاں دیکھیں۔

8 ذی ا لحجہ  کو منی کی طرف روانہ ہو گئے۔ ہمارا مکتب نمبر 8 تھا ۔اور خیموں میں قیام شروع ہو گیا۔پوری دنیا کے لوگ مختلف حصوں میں خیمہ زن ہو گئے۔رضاکار خدمت کے لئے ہر وقت تیار۔اعلی سطح کی سہولیات فراہم کرنا سعودی حکومت کا اعزاز۔بیماروں کو ائیر ایمبولینس میں لے جایا گیا۔میدان عرفات میں گئے اور حج کا خطبہ سنا۔جذبات دیدنی تھے۔کسے پتہ دوبارہ زندگی آنے کا موقع دے نہ دے۔رات مذدلفہ میں کھلے آسمان تلے  گزاری۔کنکریاں اکٹھی کیں  ۔اگلے دن رمی کی ۔ وہاں سے پیدل حرم شریف پہنچے۔طواف زیارت کیا۔حلق کروایا۔قربانی کے وقت کی اطلاع پا کر اللہ تعالی کے حضور شکرگزار ہوئے کہ اس نے بندہ ناچیزکو  حج جیسا عظیم فریضہ مکمل کرنے کی توفیق دی۔اگلے تین دن منی میں ہی قیام کیا۔منی سے پیدل  طواف کے لئے خانہ کعبہ آتے۔راستے میں آب زمزم  بکثرت دستیاب ہوتا۔انہیں  حسین نظاروں  میں گم تھا  کہ کسی نے آواز دی کہ سر آپ کا سامان بیلٹ سے اتر آیا ہے۔ہم زندگی کی حسین ترین یادیں سمیٹ کر اسلام آباد کے ائیرپورٹ پر پہنچ چکے تھے۔اب اس حقیقت کا ادراک ہو گیا کہ ایک دفعہ مکہ اور مدینہ دیکھنے کے بعد وہاں جانے کی چاہت بڑھ جاتی ہے۔اللہ تعالی تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو حج اور عمرے سعادت عطا فرمائے۔آمین

A person standing near Masjid e Nabvi


Post a Comment

0 Comments