ایس ایم ظفر-ایک عہد ساز شخصیت


ایس ایم ظفر




 تعارف                

پاکستان کے معروف قانون دان اور سابق وفاقی وزیر قانون ایس  ایم ظفر  بھرپور زندگی گزارنے کے بعد 19،اکتوبر 2023 کو لاہور میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ وہ ایک عظیم انسان تھے۔ ان کے جنازے میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے کثیر تعداد میں لوگوں نے  شرکت کی۔ اکتوبر کی ایک ٹھنڈی شام کو قانون اور انسانی حقوق  کے لئے اٹھنے والی کی ایک آواز ہمیشہ کے  لئے خاموش ہو گئی۔ان کے پاس اکثر ملاقات کرنے والوں کی رونق لگی رہتی تھی۔وہ مہمان نوازی کو فخر سمجھتے تھے۔ ان سے کئی دفعہ ملاقات ہوئی اور موبائل پر بھی پیغامات اور کال کے ذریعے  رابطہ رہتا۔

پاکستان میں قانون کے شعبہ میں  ایس ایم ظفر کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں اور ان کے چیمبر سے کئی نامور وکیل نکلے اور بعد میں جج اور جسٹس بھی بنے۔انہوں نے تقریباً 60 سال تک عملی وکالت میں حصہ لیا اور لاہور کے سول کورٹ سے لےکر عالمی عدالت انصاف تک مقدمات میں پیش ہوئے۔

                     خدمات

 ایس ایم ظفر  ایک ملنسار انسان تھے ۔ لاہور میں کئی دفعہ ان کی صحبت اور علمی گفتگو سے فیض حاصل کیا-لاہور کی ادبی اورسماجی تقریبات میں  اکثر شرکت فرماتے تھے۔ اولڈ راوین ہونے کی وجہ سے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی  کی تقریبات  میں بڑی مسرت محسوس  کرتے ۔ قانون کے طالبعلم ہونے کے ناطے میں    نے ان کی کتاب " میرے مشہور مقدمے" ایل ایل بی  کرنے کے دوران پڑھی ، جب کہ  ایس ایم ظفر  کے نام سے واقفیت کافی عرصہ سے تھی۔نارووال کی سرزمیں کے ناطے سے ایس ایم ظفر  سے رابطہ فطری عمل تھا۔ ایس ایم ظفر   کی پیدائش  6 دسمبر 1930 کو رنگون(برما) میں ہوئی تھی۔ جہاں  1858 میں بہادر شاہ ظفر کو جلا وطنی کی سزا دی گئی تھی اور وہیں  1862 میں ان کا انتقال ہوا تھا۔  ایس ایم ظفر   بچپن میں بہادر شاہ ظفر کے مزار پر اکثر جاتے تھے ۔ وہاں کے حالات کشیدہ ہوئے تو پنجاب آ گئے، شکر گڑھ کے نزدیک چک قاضیاں ان کا آبائی علاقہ تھا، غلام الدین ہائی سکول (مینگڑی)شکر گڑھ سے 1945ء میں میٹرک کیا ، بعد ازاں انٹر اور قانون کی تعلیم   لاہور  سے حاصل کی، گورنمنٹ کالج لاہور میں قیام پاکستان سے دو سال پہلے داخلہ لیا ۔ایس ایم ظفر،جسٹس سردار محمد اقبال مرحوم

         ( جو جرح کی آرٹ کو بخوبی جانتے تھے) کی پیشہ ورانہ  صلاحیتوں کے معترف تھے۔ اور  انہیں ایک استاد  کا درجہ دیتے تھے۔انہوں نے پہلا مقدمہ 1954 میں لیا اور 1965 میں وہ وفاقی وزیر قانون بن گئے۔  مختصر وقت میں اس منصب تک رسائی  کسی  شخص کے لئے بہت بڑی  کامیابی  خیال کی جاتی ہے ۔ اس طرح انہوں نے  قانون  کے مسائل کو کئی  زاویوں سے دیکھا۔ان کے  مطابق مقدمات میں عوام کی دلچسپی کی چار وجوہات ہوتی ہیں۔مقدمہ کے کردار،مقدمہ میں اٹھائے گئے نقاط،وکلاء کی بحث اور  عدالت کا فیصلہ۔ ایس ایم ظفر    کا جانشینی کا پہلا مقدمہ نامور شاعر فیض احمد فیض کے بڑے بھائی سول جج طفیل احمد کی عدالت میں پیش ہوا۔وہ لکھتے ہیں کہ وکالت کتنا اچھا اور اعلی پیشہ ہے  جس میں  روپیہ پیسا کوئی اور لگاتا ہےلیکن علم اور مہارت وکیل حاصل کرتا ہے۔ وکیل قانون کے ذریعے انصا ف دلا سکتا ہے وہ عدالت میں قانون کی بالا دستی کا مدد گار ہوتا ہے۔اس لئے اس کی ذمہ داری ہے کہ دوران عدالتی کاروائی وہ خود بھی قانون کی پابندی کرے۔ صوفیا ء کرام کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے صوفیاء کرام انسانی حقوق کے تحفظ کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔اور یہ ان کی انسان دوستی ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ  جہاں کہیں بھی گئےلو گوں کے دل ونگاہ ان کے لئے فرش راہ ہوگئے ملک کے لئے اعلی خدمات کے باعث2011 میں انہیں صدارتی ایوارڈ نشان امتیاز سے نوازا گیا۔ایس ایم ظفر نے ڈاکٹر عبد القدیر خان (مرحوم) کا مقدمہ ہالینڈ کی عدالت عالیہ  سے جیتا تھا۔ ایس ایم ظفر کا شمار ان وکلا ء میں ہوتا ہے جنہیں کبھی کلائنٹ کی تلاش نہ رہی بلکہ ہمیشہ کلائنٹ ان کی تلاش میں رہے، لوگ انہیں اپنا وکیل کرنے کے لیے ریفرنس تلاش کرتے تھے۔آئین پاکستان اور اس سے متعلقہ قوانین پر انہیں دسترس حاصل تھی۔

                           کتب

 ان کی اہم اردو تصانیف میں

 میرے مشہور مقدمے ،

عدالت میں سیاست  ،

عوام، پارلیمنٹ اور اسلام،

سینیٹرایس ایم ظفرکی کہانی،

 ڈکٹیٹر کون؟

تذکرے اورجائزے،

پاکستان بنام کرپشن ،

عوام  کی عدالت میں اورغیب سے مضامین  شامل ہیں۔

ایک لائبریری میں دو آدمی
ایس ایم ظفر سے ملاقات


میرے مشہور مقدمے

ان کی کتاب " میرے مشہور مقدمے" میں   ملکی اور بین الاقوامی  سطح پر مشہور مقدمات کا ذکر ملتا ہے۔ان  میں  معروف ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر  خان کیس،اداکارہ  شبنم چوری کیس، میڈم نور جہاں کیس،اگرتلا سازش کیس،جنرل یحیی خان کیس،سابق گورنر پنجاب غلام مصطفے کھر کیس،جنرل فضل حق کیس،کشمیر کا مقدمہ، سکھ نوجوان ہائی جیکنگ کیس اور سخی دلیر خان کیس بھی  شامل ہیں۔۔مرحوم 1975ءمیں صدر لاہور ہائیکورٹ بار منتخب ہوئے اور 1979ءمیں سپریم کورٹ بار کے صدر بنے۔مرحوم قومی اور بین الاقوامی امور پر ملکی اور غیر ملکی جرائد میں مضامین بھی لکھا کرتے تھے۔ایس ایم  ظفر صاحب ہمیشہ میڈیا فرینڈلی رہے ہیں-وہ ایک قانون دان ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاسی معاشرتی اور ثقافتی زندگی کے اہم مبصر بھی تھے۔ ڈاکٹر وقار ملک نے  اپنی کتاب "مکالمہ"  لکھ کر جناب ایس ایم ظفر کی صورت میں ایک اچھے اور صوفی منش انسان سے پڑھنے لکھنے  والے کا قلبی ، روحانی اور عقیدت کا رشتہ قائم کر دیا ہے۔ ایس ایم ظفر بہت ممتاز، بلکہ ممتاز تر قانون دان ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست سے بھی اپنے آپ کو دور نہیں رکھ سکے۔ تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتے تھے ، پاکستان کی تاریخ پر ان کی گرفت ان کی ضخیم کتب سے واضح ہے، ان کے وسیع مطالعے اور  عمیق مشاہدے کی وسعتیں ماپنا بہت مشکل ہے۔ قومی زندگی پر ان کے خیالات و اقدامات نے گہرے اثرات مرتب کیے ۔ ان کی اجتہادی بصیرت نے انہیں انفرادی شان بخشی۔ وہ مشکل میں گھبراتے نہیں تھے۔ایس ایم ظفر نے وکیلوں کی رہنمائی کے لئے انگریزی میں  بھی کئی کتب لکھیں۔ جن میں "قوانین کی کتب کی تشریح" سب سے اہم ہے وہ ایک  دین دار اور اصول پرست انسان تھے۔ اور کئی فلاحی تنظیموں کی امداد اور انتظامی امورکی رہنمائی  کرتے تھے۔اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائیں۔آمین

  

Post a Comment

5 Comments

Abid Hassan said…
A truly influential person who left marks on the pages of history.
Sabri said…
سر السلام و علیکم۔ سر بہت اچھا بلاگ لکھا ہے۔ یہ نہ صرف بلاگ اچھا ہے بلکہ آپ نے ایس ایم ظفر صاحب کی شخصیت کی بھی بہت اچھے سے عکاسی کی ہے۔
اللہ تعالٰی کی ذات آپ کے قلم کو مزید ترقی عطا فرمائے۔ آمین۔
Minahil said…
May Allah bless his soul.Ameen.
amjad said…
Dear Thanks for your valuable views.