کیپٹن کرنل شیر خان شہید( نشان حیدر)

 

 

 

An image of a soldier with beard



 

قوموں کی زندگی میں  بے شمار مواقع ایسے  آتے ہیں جب  ملک  کی سر حدوں کی حفاظت کے لئے  اس کے جوانوں کو جان  کے نذرانے پیش کرنے پڑتے ہیں۔وطن  کی  سرحدوں کی حفاظت  کے جذبے سے سرشار یہ غازی یہ پر اسرار بندے   مصائب و آلام   اور کٹھن راستوں سے گھبراتے نہیں ۔بلکہ 

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان  تو  آنی  جانی  ہے ، اس  جاں  کی  تو  کوئی  بات  نہیں

کے مصداق وہ  مٹی  سے ایفائے عہد کے لئے جان کا نذرانہ پیش کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

 بیسویں صدی، دنیا کی ہولناکیوں اور مصائب کی چشم دید گواہ تھی اس نے جنگ عظیم اول دیکھی، سلطنت عثمانیہ ختم ہوتے دیکھی ، جنگ عظیم دوم کا نظارہ کیا۔ پاکستان بنتے دیکھا۔عرب اسرا ئیل  جنگ دیکھی ۔سرد جنگ  دیکھی، میزائل کی دوڑ دیکھی ۔ اس صدی کے آخری سال  میں جنوبی ایشیا کی برف پوش پہاڑیوں میں اس نے ایک اور معرکے کا مشاہدہ کرنا تھا۔ ابھی میدان جنگ نے دیکھنا تھا کہ" کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے"۔ ابھی وطن کے رکھوالوں نے  آنے والی  نسلوں کے لئے وفاؤں کے اور سبق لکھنے  تھے۔ابھی کچھ نام سنہری حروف سے لکھنا باقی تھے۔چشم فلک نے کچھ نئے نظارے دیکھنے تھے ۔ابھی کچھ مومنوں نے  رزمِ حق و باطل  میں فولاد بننا تھا۔ابھی اندلس کے میدان جنگ میں طارق بن زیاد  کی دعا کے بقول دو عالم سے بیگانہ کرنے والی لذت سے  آشنا  جوانوں نے  کلمہ حق کہنا تھا۔ابھی لہو  کو گرمانے والے کچھ ملی نغمے  بننے رہ گئے تھے ۔ابھی کچھ عظیم  ماؤں کے بیٹوں نے اپنے لہو سے وفا کی کہانیاں رقم کرنی تھیں ۔ ابھی  کچھ شہیدوں کے والدین نے نشان حیدر لے کر اپنے سر کو اور بلند کرنا تھا۔ ابھی علامہ اقبال کے کچھ شاہینوں نے  سر بکف ہوکر  پہاڑوں کی ہیبت کو رائی ثابت کرنا تھا۔ابھی  سرخ پھولوں نے سہرے کی بجائے  کفن بکس کی شان بننا تھا۔ابھی  شاعروں نے زمین سے یہ سوال پوچھنا تھا؎

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو  نے  وہ  گنج ‌ہاۓ گراں   مایہ   کیا       کیے

انہیں  مرد مجاہدوں کی  چوٹی کی لسٹ میں کیپٹن کرنل شیر خان شہید کا نام آتا ہے۔کیپٹن کرنل شیر خان شہید (1999–1970) خیبر پختون خواہ کے ضلع صوابی کے  ایک گاؤں کرنل شیر کلی( پرانا  نام نواں کلی )میں پیدا ہوئے۔ صوابی کی زرخیز زمین میں جنم لینے والے  اس افسر نے اپنے ملک وقوم کا وقار بلند کیا ۔ انہوں نے 1999 میں بھارت کے خلاف کارگل کے معرکے میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے پاک فوج کا اعلی ترین فوجی اعزاز نشانِ حیدر حاصل کیا۔


A soldier standing in the Field
(کیپٹن کرنل شیر خان شہید۔فیلڈ ایریا)


 یہ بات کم ہی دیکھنے میں آتی ہے کہ دشمن کی فوج اپنے مقابل کے کسی فوجی کی بہادری کی تعریف کرے  اور اپنے حریف سے یہ کہے کہ  فلاں فوجی کی بہادری قابل  قدر ہے۔حال  ہی میں ایک  انڈین مصنفہ رچنا بشٹ راوت کی کتاب ۔" کارگل ان ٹولڈ سٹوریز فرام دی وار "کے  مطابق کیپٹن کرنل شیر خان نے  ایک بڑے دشمن کا مقابلہ انتہائی جرات اور بہادری کے ساتھ کیا۔دشمن کے  کمانڈنگ آفیسر نے  بھی ان کی بہادری  کااعتراف کیا تھا ۔ جب کیپٹن شیر خان کا جسد  خاکی واپس کیا گیا تو ان کی جیب میں  انڈین بریگیڈیئر ایم ایس باجوہ نے کاغذ کا ایک پرزہ رکھ دیا جس پر لکھا تھا: "12 این ایل آئی کیپٹن کرنل شیر خان انتہائی بہادری اور بےجگری سے لڑے اور انھیں ان کا حق دیا جانا چاہیے۔"۔بی بی سی نے بھی  ان کی بہادری پر ایک ڈاکومنٹری بنائی۔میں نے 1999   میں ان کے والد کے نام خط لکھا تھا جس میں شہید کی بہادری اور جوانمردی کا ذکر کیا تھا۔  اکتوبر  2019 میں ان کے بھائی   انور شیرخان  میری دعوت پر  لاہور تشریف لائے اور ان کے ساتھ ہم   نے لاہور کے آرمی میوزیم کا وزٹ کیا اور  کیپٹن کرنل شیر خان شہید کا مجسمہ دیکھا اور وہاں درج  ان کی  بہادری کے کارنامے  پڑھے۔ آرمی میوزیم کے برگیڈیرخان احمد  سفیان (مرحوم) نے سارے میوزیم کی سیر کرائی  اور مہمانوں کو  سوونیئر بھی دیا  ۔ آرمی   میوزیم کے کیفے سے چائے پینے کے بعد مہمان  روانہ ہو گئے۔ یہ دن  میرے لئے   جوش و جذبے سے بھرپور تھا۔ میں نے کیپٹن کرنل شیر خان شہید( نشان حیدر) کی شجاعت کے اعتراف میں سوونیئر بنوائے ہیں۔ جو  ملنے والے  دوستوں کو  پیش کرتا  ہوں۔ مجھےکیپٹن کرنل شیر خان شہید کے کورس میٹ ہونے پر فخر ہے، پی ایم اے میں  دوران تربیت کئی دفعہ اُن سے ملنے کا اعزاز حاصل ہے ۔ ان کے بھائی کے بقول  وہ  بہادر ،نڈر،محنتی ، با رعب شخصیت  کا مالک اور سیر کرنے کا شوقین تھا ۔بھائی   انور شیرخان سے اگست 2023 میں بھی ملاقات ہوئی تھی ۔

(مصنف، شہید  کے بھائی  انور شیرخان کے ساتھ)



 کیپٹن کرنل شیر  خان مکمل طور پر اسلامی تعلیمات اور افکار پر عمل کرتے تھے۔ علاقے کے بچے بھی  کیپٹن کرنل شیر  خان کی طرح ملک کے دفاع کے لئے  جذبہ شہادت سے سرشار ہیں۔کیپٹن کرنل شیر خان  شہید کے بڑے  بھائی  کی خواہش پر  فیصل مسجد اسلام آبادکی بجائے  انہیں  ان کی والدہ کے پہلو  میں صوابی میں دفنایا گیا۔ان کی آخر ی گاہ  کے پاس ایک چھوٹا  سا میوزیم بھی بنایا گیا ہے جہاں کیپٹن کرنل شیر خان شہید کے زیر استعمال اشیاء رکھی گئی ہیں۔ملک بھر سے کثیر تعداد میں لوگ وہاں دعا کے لئے آتے ہیں اور میوزیم کو دیکھ کر ان کے جذبے کو تقویت ملتی ہے  ۔  کیپٹن کرنل شیر خان پی ایم اے میں اپنے پلاٹون میٹس اور  کورس میٹس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اپنی  کارکردگی  کی بنیاد  پر انہوں نے پی ایم اے میں بہترین  اپوائنٹمنٹ حاصل کی۔جونیرز کے ساتھ بہت شفیق تھے۔ جب وہ لیفٹیننٹ تھے اور کسی کو فون پر اپنا پورا نام " لیفٹیننٹ کرنل شیر خان"بتاتے  تو دوسرا شخص انہیں کمانڈنگ آفیسر تصور کرتا۔  یونٹ کے تما م ایونٹس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ۔ وہ دوسرے افسروں کے ساتھ "سکریبل"کھیلا کرتے تھے اور اکثر جیتتے تھے۔  کیپٹن کرنل شیر خان کے دادا،اپنے علاقے کی ایک معزز  شخصیت اور معتبر انسان تھے ۔ انہوں  نے کشمیر میں  1948 کی مہم میں حصہ لیا تھا۔ انھیں یونيفارم میں ملبوس فوجی اچھے لگتے تھے چنانچہ ان کے یہاں جب پوتا پیدا ہوا تو انھوں نے کرنل کا لفظ ان کے نام کا حصہ بنا دیا۔ کیپٹن کرنل شیر  خان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔ انہوں نے آخری وقت تک دشمن کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ان کے بارے میں کتابیں لکھی گئیں، ٹی وی پروگرام بنے۔ میں نے پورے ملک میں ان کے نام پر کالج ، ہسپتال،چوک، ڈائننگ ہال، سٹیڈیم، پارک اور  روڈ دیکھے ۔ ان کے نام  سےڈاک کے ٹکٹ جاری ہوئے، انہوں نےاپنے  نام کی لاج رکھی،نام شیر اور لڑا  ٹائیگر  ہل پر،ڈر  نام کی چیز اس کی ڈکشنری میں نہیں تھی۔اسلام ،پاکستان ، اپنے والدین، علاقے ، کورس(90 ۔پی ایم اے لانگ کورس)اور  یونٹ  سب کا نام بلند کیا۔ ان کی یونٹ میں حوالدار لالک جان شہید  نے بھی نشان  حیدر حاصل کیا۔ کارگل پر لکھی گئی کتاب "وٹنس ٹو بلنڈر-کارگل سٹوری انفولڈز" کے مصنف اشفاق حسین بتاتے ہیں کہ "کرنل" لفظ شیر خان کے نام کا حصہ تھا اوروہ اسے بہت فخر سے استعمال کرتے تھے۔ ۔ ان میں حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ قوم کے اس بیٹے کا یوم شہادت ہر سال 5 جولائی کو منایا جاتا ہے۔ان کی لحد پر پاک فوج کا دستہ سلامی پیش کرتا ہے ۔اور پھولوں کی چادر چڑھاتا ہے۔

پاکستان زندہ باد


A building of a museum
(کیپٹن کرنل شیر خان  شہید۔میوزیم -صوابی)


Post a Comment

2 Comments

Kuresh said…
He was a soldier par excellence. His matter of shahadat and afterwards has been succinctly covered by the writer
Shahid Ali said…
Wonderful tribute to a champion soldier