یوم تکبیر اور تجدید عہد

 

Image of a person, a flag and a missile


 

توانائی  کا تعارف

حقیقت اور نظر آنے والی چیزوں میں بہت فرق ہے۔ہماری آنکھ دیوار تک تو دیکھ سکتی ہے لیکن دیوار کے آگے نہیں۔ کائنات میں موجود و عدم کی آگہی اور رہنمائی کے لیے جس چیز کا انسان عموماً سہارا لیتا ہے وہ انسانی شعور ہے ۔صاحبِ وجدان( Intuition) کی نگاہ عام افراد کی بصارت سے مختلف ہوتی ہے۔ وہ دور بیں و حقیقت شناس ہوتا ہے۔ قطرے میں بحر اور جزو میں کُل کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ زمین  بہت بڑی  ہے‘ عظیم کائنات ہے‘ کہکشائیں ہیں‘ ایسے ایسے ستارے ہیں جو سائز میں ہمارے سورج سے لاکھوں گنا بڑے ہیں۔ فضا میں کچھ ایسی بلندیاں بھی موجود ہیں  جہاں زمین کی روشنی ایک سال، دو سال، دس سال،ہزار سال ، دس لاکھ سال بعد بلکہ کروڑوں سال بعد پہنچتی ہے۔ پوری کائنات کی وسعت کو دیکھیں تو یہ ہمارا سورج بھی ایک ذرّہ معلوم ہوتا ہے‘ اور ذرّے کا دل چیریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اند رپورا سورج موجود ہے ؏ ’’لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّے کا دل چیریں!‘‘ ان ذرات کا دل چیر کر ایٹمی توانائی نکالی گئی ہے۔ سائنس تو آلات ایجاد کرنے کا ذریعہ ہے۔ سائنس تو توانائی کے سرچشمے تلاش کرنے اور قدرتی طاقتوں کو دریافت کرنے کا ذریعہ ہے۔ توانائی (Energy)  کا  سب سے پہلا ذریعہ جو انسان نے دریافت کیا وہ آگ ہے ۔ ہزاروں سال قبل کسی انسان نے دیکھا کہ ایک چٹان اوپر سے گری‘ نیچے بھی چٹان تھی‘ دونوں کے ٹکرانے سے شعلہ نکلا۔ اب اس نے اس مشاہدے کی بنیاد پر خود تجربہ کیا اور دو پتھر لے کر خوب زور سے ٹکرائے تو شعلہ نکل آیا۔ لیجیے آگ ایجاد ہو گئی۔ اس سے پہلے انسان کچا گوشت کھاتا تھا ‘اس کے علاوہ پھل کھاتا تھا‘ درختوں کی جڑیں کھاتا تھا۔آگ کی دریافت کے بعد انسان نے گوشت کو بھون کر اور پکا کر کھانا شروع کر دیا۔ اسے اوّلین طاقت  کا  ماخذ مل گیا ۔ پھر کسی سائنس دان نے دیکھا کہ ایک ہانڈی چولہے کے اوپر چڑھی ہوئی ہے اور اس کا ڈھکنا ہل رہا ہے۔ اس نے سوچا اس کو کون ہلا رہا ہے؟

 معلوم ہوا کہ اندر بھاپ (steam) پیدا ہو رہی ہے اور بھاپ میں اس قدر طاقت ہے کہ وہ اسے ہلا رہی ہے۔ اس طرح توانائی کا ایک ذریعہ بھاپ دریافت ہو گئی اور اس سے بڑا کام لیا گیا۔ کبھی سٹیم کے انجن چلتے تھے ‘ جو بڑے ہیبت ناک اور دیو ہیکل ہوا کرتے تھے۔  یہ سٹیم سے چلتے تھے۔ پھربجلی ایجاد ہو گئی۔

ایٹمی نظریہ

جان ڈالٹن انگریز سائنس دان۔ مادے کے ایٹمی نظریے کے لیے مشہور ہے۔ یہ نظریہ اس نے 1803ء میں شائع کیا۔دیموقراطیس(Democritus  ) یونانی فلسفی جسے بابائے طبیعیات کہا جاتا ہے۔ تھریس کے شہر ابدیرا میں پیدا ہوا۔ اس نے 400 قبل مسیح میں  یونانی فلاسفر  لیوسیپس (Leucippus )سے متاثر ہو کر عالمی نظریہ جوہری توانائی پیش کیا جس میں اجسام و اجرام کی حرکات و سکنات کی توجیہ بیان کی۔اصل میں صرف ایک ہی جوہر اور ایک ہی خلا ہے اس نے معلوم کیا کہ صرف حواس خمسہ ہی چیزوں کی حقیقت تک رہبری نہیں کر سکتے۔ اس کا نظریہ تھا کہ اجزا یا مادہ ازل سے موجود ہے اور غیر فانی ہے۔ جسامت اور شکل و صورت میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ماہیت کے لحاظ سے یہ ایک ہی ہیں۔ چیزوں کی خاصیتوں میں اختلاف ایک ہی نوعیت کے ذروں کی جسامت، شکل و حرکت، میں اختلاف کا نتیجہ ہے۔ لوہے یا پتھر میں جوہر لرزتے ہیں۔ ہوا میں وہ طویل تر فاصلوں کو طے کرتے ہیں۔ غیر محدود فضا میں جوہر ہر سمت میں حرکت کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتے ہیں۔ اور مشابہ جوہر یا اجزا ایک دوسرے سے مل کر عناصر بناتے ہیں اور ان عناصر سے لاتعداد عالم بنتے بگڑتے ہیں اور فنا ہو جاتے ہیں۔فلسفیانہ نقطۂ نظر سے دیموقراطیس کے نظریے کی اگرچہ کوئی حقیقت نہ ہو، مگر یہ نظریہ جوہر آج کل کے نظریے کے قریب تر ہےیہی چیز ایپکورس ( Epicurus  ) نے بھی واضح کی۔ اور لوکریٹیوس نے بھی اسے اپنی شاعری میں بیان کیا۔انرائکو فرمی   امریکی سائنسدان  نے 1942 میں پہلا نیوکلیر  ری ایکٹر بنایا۔تاہم  البرٹ آئن سٹائن کے خط لکھنے پر  امریکی صدر روزویلٹ نے ایٹمی توانائی میں دلچسپی ظاہر کی جس کا عملی مظاہرہ   جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی  میں بڑے پیمانے پر انسانی تباہی سے ہوا۔

1974 میں بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کر دیا جبکہ پاکستان کو اس سلسلہ میں ابھی تک خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔ اسی سال یعنی 1974 میں ڈاکٹر عبدالقدیر نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں شمولیت اختیار کی  اور ’’ کہوٹہ ریسرچ  لیباٹریز‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔

پاکستان کی ایٹمی صلاحیت

بھارت نے جب 1998 میں ’’ آپریشن شکتی ‘‘ کے نام سے پوکھران کے مقام پر پانچ ایٹمی دھماکے کئے تو شاید اسے غلط فہمی تھی کہ پاکستان بھارت کی اس بلا جواز اشتعال انگیزی کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ عالمی برادری خاص طور پر امریکہ اور مغربی دنیا نے بھارت کی اس عالمی جارحیت کا کوئی زیادہ برا نہ منایا اور بھارت کے ساتھ انکے تعلقات معمول کے مطابق ہی چلتے رہے۔ پاکستان کی حکومت اور اداروں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو آخر کار وہ پاکستان کی بقا اور حفاظت کے لیے اس بات پر مجبور ہو گئے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں اور پاکستان نے بھارتی ’’ دھمکی ‘‘ کا جواب 28 مئی 1998ء کو اپنے پہلے ایٹمی دھماکے ’’ چاغی اول‘‘ کی شکل میں دیا۔ 30 مئی تک پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کیے اور اسطرح پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا۔

اللہ کی کتاب میں ارشاد ہوا" ( مسلمانو !) اپنے دشمنوں کے لیے اپنے پاس حتی الامکان طاقت اور بندھے ہوئے ( گھوڑے ( یعنی وقت کے تقاضوں کے مطابق جدید ترین اسلحہ تیار رکھوتاکہ تم ڈراؤ   (خوف زدہ کرو) اپنے دشمنوں کو بھی اور اللہ کے دشمنوں کو بھی"

یہاں مسلمانوں کو اپنے دشمنوں کے خلاف  بھر پور دفاعی صلاحیت حاصل کرنے کی حتی الوسع کوشش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔آج اگر اللہ تعالی نے  پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے نوازا ہے تو یہ ملک و قوم کی عظمت کا نشاں ہے۔اور  عالم اسلام کی طرف سے پاکستان کے پاس ایک امانت بھی، ہمیں بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر  میں ایسی جرات مندانہ پالیسی اپنانی چاہئے تا  کہ دشمنوں کے لئے ایٹمی ہتھیاروں کی صورت میں  قوت مزاحمت کا توازن

  ( Deterrence )  برقرار رہے۔ اور اللہ کا دین غالب رہے۔آج کے دن اسی  عہد کی  تجدید  کرنی چاہئے۔


Pakistan's Flag


Post a Comment

2 Comments

amncs said…
𝐆𝐫𝐞𝐚𝐭
Minahil said…
Every year, Yom-e-takbeer fills Pakistanis with immense pride as it symbolizes the country's entry into the league of nuclear powers. Very well written and informative blog